Blog | Funoonika
Funoonika

Funoonika & Jamia-Tur-Rasheed

ٹیکنالوجی سے ڈریے مت

ٹیکنالوجی سے ڈریے مت
اچانک ایک شور سا اُٹھا۔ میں نے نانی محترمہ سے کہا: ذرا دروازے کا کنڈا اٹھائیے! میں باہر جا کر دیکھوں تو، ہوا کیا ہے۔باہر نکلا تو دیکھا: انکل زبیر کے گھر کے سامنے کافی سارے لوگ جمع تھے۔ مارے خوشی کے ان کے چہرے تمتما رہے تھے۔ میں نے ماجرا پوچھا تو پتہ چلا کہ انکل زبیر ایک چیز لائے ہیں، جس میں سے لاہور والے ماموں ارشد کی آواز آتی ہے۔جی جی! یہ اسی ٹیلیفون کی بات ہورہی ہے، جس کے رنگ کو بار بار گھما کر نمبر ڈائل کیے جاتے تھے۔ یہ ٹیلیفون سب سے پہلے انکل زبیر کے گھر آیا تھا، جس پر سارے محلے والوں کی خوشی دیدنی تھی۔ یہ 1998ء /  1999ء کا زمانہ تھا۔ جب لوگ سادہ لوح تھے اور دل محبتوں سے سرشار۔پھر یکایک ہم 2021ء میں پہنچ گئے، جیسے بس پلکیں ہی جھپکائی ہوں۔ ٹیکنالوجی نے بےلگام پرواز بھر رکھی ہے۔ معیار زندگی یکسر بدل چکا ہے۔ ہر سو جدت کی صدائیں ہیں۔ عسکری،  سماجی،  معاشی،  معاشرتی،  تعلیمی، کھیل کود، صحت، غرض ہر شعبے میں ٹیکنالوجی بھرپور کردار ادا کر رہی ہے۔ وہ تار والا بڑا سا ٹیلیفون بھی سمٹ کر وائرلیس، ڈیجیٹل، اسمارٹ بن کر ہر شخص کی جیب میں براجمان ہے۔ میرے بزرگ استاذ، سر سلیم احمد زبیری صاحب (مرحوم) فرماتے تھے کہ اگر ابھی میرے والد بزرگوار حیات ہوتے اور وہ دیکھتے کہ اپنے عزیز کی خیریت معلوم کرنا اتنا آسان ہو چکا ہے تو مارے خوشی کے وہ دوبارہ اللہ کو پیارے ہو جاتے۔ ترقی یافتہ ممالک کا بچہ بچہ اس ٹیکنالوجی کی مرہونِ منت Entrepreneur اور Millionaire بن چکا ہے۔ اس میں ان ممالک کی حکومتوں کے علاوہ بچوں کے والدین کا بھی بڑا کردار ہے۔ مختصراً یہ کہ ٹیکنالوجی ترقی یافتہ قوموں کی زندگی کا معیار اور ان کی خوشحالی کا ضامن بنی ہوئی ہے۔مگر نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ وطن عزیز پاکستان کے باسی آج بھی اس نعمت سے اجتماعی طور پر فائدہ اٹھانے سے قاصر ہیں۔ ابھی بھی بہت سے افراد کے لیے یہ ٹیکنالوجی مضر بنی ہوئی ہے، اس کی وجہ آگاہی کا فقدان ہے ہے۔ کیونکہ معاشرے کے بڑے اور باشعور افراد انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل ڈیوائسز سے اپنی ناواقفیت کو سادہ لوحی سے تعبیر کرتے ہیں اور ان کے استعمال سے کتراتے، ہچکچاتے اور دور بھاگتے نظر آتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نوجوان نسل، آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے،  بے راہ روی کا شکار ہو کر، مثبت کے بجائے منفی استعمال میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اپنی صحت بھی خراب کر لیتے ہیں۔ اپنے والدین کے لئے بھی سردردی کا باعث بنتے ہیں۔بھلا ہو ان نیک صفت لوگوں کا جو اس سلسلے میں بے لوث خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ قوم کے معماروں کو آگاہی فراہم کر رہے ہیں۔ Soft Skills سکھانے میں سر ہشام سرور، سر عمران علی ڈینا اور دیگر شفیق اساتذہ پیش پیش ہیں۔ E-Commerce کے حوالے سے سر ثاقب اظہر سر سنی علی کی کاوشیں نمایاں ہیں۔ حکومت پاکستان نے بھی اس حوالے سے خوش آئند اور قابل ستائش اقدامات اٹھائے ہیں مفت کورسز متعارف کروائے ہیں۔باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: "اللہ تعالی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اسے نا بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے"۔ (سورۃ الرعد، آیت : 11حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "دانائی کی بات مومن کی گمشدہ چیز ہے وہ جہاں کہیں بھی اسے ملے وہ اس کا زیادہ مستحق ہے"۔ (سنن ترمذی، ابواب العلم، حدیث : 2687)میری، والدین سے یہ التجا ہے کہ خدارا! اس نعمت سے فائدہ اٹھائیے! نہ صرف اپنی اولاد کو، جدید دور کے ان ضروری تقاضوں سے روشناس کروائیں،  بلکہ خود بھی آگاہی حاصل کریں، جب ہی آپ اپنی اولاد کی محفوظ اور مفید تربیت کر سکیں گے اور جب ہی وہ صحیح معنوں میں قوم کے معمار بن سکیں گے۔شعر:حیرت ہے کہ تعلیم و ترقی میں ہے پیچھےجس قوم کا آغاز ہی اقرأ سے ہوا تھاٹیکنالوجی سے ڈریے مت، نہ ہی اس سے گھبرائیے۔ یقین جانیئے اس دور جدید میں یہ کسی نعمت سے کم نہیں۔ اپنی نگاہ کو دوراندیش بنائیے۔ اپنے ذہن میں تخلیقی سوچ پیدا کیجئے۔ اور وطن خداداد کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی میں اپنا حصہ شامل کیجیے۔ 
از قلم : ( حافظ سید محمد دانش ( کلیۃ الفنون

Tags

0 Comments

Leave a Comment