Blog | Funoonika
Funoonika

Funoonika & Jamia-Tur-Rasheed

تاریخ کا سبق

تاریخ کا سبق

تاریخ کا مطالعہ کریں تو 3 سچ بڑی قوت کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔ تاریخ خود کو دہراتی ہے۔ ہر عروج کو زوال ہے اور قوموں کی زندگی میں ماہ و سال نہیں، صدیاں اہمیت رکھتی ہیں۔

آپ بابل اور نینوا کی تہذیب کا مطالعہ کیجیے۔ ایشیا کے دل بغداد میں میدیپو ٹیمیا یعنی مابین النہرین پھل پھول رہی تھی۔ شاید ایک منظم حکومت سے چند قدم پیچھے۔ آپ نے اسی کے بادشاہ حمورابی کا تذکرہ سن رکھا ہوگا، جس کی طرف دنیا کا پہلا قانون منسوب ہے۔ موجودہ ایران، ترکی شام اور عراق اس کا حصہ تھے۔ 1750 قبل مسیح سے 1792 قبل مسیح تک اس کا طوطی بولتا تھا، مگر تاریخ کا سفر بہتر سے بہترین کے لیے جاری رہا۔

وقت آگے بڑھ گیا اور بابل و نینوا تاریخ کے صفحات پر ایک دھندلا نقش بن کر رہ گئے۔ ایک ایسی داستان جو حیرت، سسپنس اور تجسس سے بھرپور ہوگا۔ جس کے جادوئی باغات، آسمان سے لٹکتے پھل اور کنوئوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔

دنیا پر حکمرانی کا تاج ایشیا کے سر سے اترا اور یورپ کے سر پر سج گیا۔ بحیرئہ روم کے کنارے واقع چھوٹے سے ملک یونان کو سپر پاور قرار دیا گیا۔ سقراط، افلاطون اور ارسطو نے علم و فکر کے نئے دور کھول دیے۔ سکندراعظم نے علم سے آگے بڑھ کر عمل کو اپنایا اور دنیا مسخر کرنے نکل کھڑا ہوا۔ یورپ سے نکل کر ایشیا اور افریقہ پر فتح کے جھنڈے گاڑ دیے۔ سکندراعظم نے کہا تھا: ’’ارسطو زندہ رہا تو ہزاروں سکندر اعظم تیار ہوجائیں گے، مگر ہزاروں سکندر اعظم مل کر بھی ایک ارسطو کو جنم نہیں دے سکتے۔‘‘

اور پھر عظیم ترین یونانی سلطنت بھی زیبِ داستان بن کے رہ گئی۔ 20 سال کی عمر میں 5 ہزار گھڑسوار اور 30 ہزار پیادہ فوجیوں کے ساتھ نکلنے والا سکندر اعظم، 32 سال کی عمر تک دنیا فتح کرچکا تھا۔ عین جوانی میں اللہ تعالیٰ نے اسے بابل پہنچایا۔ وہ بابل پہنچا اور موت کے ہاتھوں چاروں شانے چت ہوگیا۔ 800 قبل مسیح میں شروع ہونے والی یونانی تہذیب صرف دو سول سال تک اپنا جادو جگاسکی۔ سقراط، افلاطون اور ارسطو کی تمام تر علمی ترک تازیاں تاریخ کے رستے کی دھول بن کر رہ گئیں۔

اس کے بعد 530 قبل مسیح میں سائرس دوم نے فارس کی سلطنت قائم کردی۔ اس کے 5 سو سال بعد روم کی سلطنت قائم ہوئی۔ یوں ایشیا اور یورپ پہلی بار آمنےسامنے آگئے۔ بالادستی کے لیے ایک دوسرے پر حملہ آور ہونے والی ان دونوں سپرپاورز کو اللہ تعالیٰ نے جزیرہ نمائے عرب سے اٹھنے والے ’’نور لاالٰہ‘‘ کے ہاتھوں شکست سے دوچار کردیا۔ مسلمانوں نے ایک ہزار سال تک دنیا پر حکمرانی کی۔ انسانی تاریخ کی طویل ترین حکمرانی۔

مگر ہر عروج کو زوال ہے، تاریخ خود کو دہراتی ہے اور قوموں کی زندگی میں سالوں نہیں، صدیوں کو اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ آج دنیا پر امریکا و چین کی بالادستی ہے، مگر اصل بات یہ ہے کہ اس عبوری دور میں مسلمان کیا تیاری کررہے ہیں؟ کیا واقعی مسلمان علم و فن کی معراج کو پانے کے لیے کوشیاں ہیں؟ کیا واقعی ہم دنیا پر حکمرانی کے لیے تیار ہیں؟ اقبال نے کہا تھا    ؎

قوت مغرب نہ از چنگ و رباب

نے زر قصِ دخترانِ بے حجاب

قوتِ مغرب از عمل و فن است

از ہمیں آتش چراغش روشن است

از قلم : مولانا عبدالمنعم فائز

0 Comments

Leave a Comment